Wednesday, December 2, 2015

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجئے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بے زار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کو میں جا مریں گے مدد اے ہجوم شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کردیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبار دل
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خار راہ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گل کھلے گا دیکھئے، ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھا
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دم بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشم پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم



No comments:

Post a Comment

Sponsored