نئے کپڑے بدل کر جاؤں
کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ
گیا میں باہر جاؤں کس کے لئے
جس دھوپ کی دل میں
ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی ہلتی گلیوں
میں اب خاک اڑاؤں کس کے لئے
وہ شہر میں تھا تو اس
کے لئے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے
میں ناز اٹھاؤں کس کے لئے
اب شہر میں اس کا بدل
ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں
کے گلدان سجاؤں کس کے لئے
مدت سے کوئی آیا نہ
گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں
ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لئے
No comments:
Post a Comment