لو کو چھونے کی ہوس میں ایک چہرہ جل
گیا
شمع کے اتنے قریب آیا کہ سایا جل گیا
پیاس کی شدت تھی سیرابی میں صحرا کی
طرح
وہ بدن پانی میں کیا اترا کہ دریا جل
گیا
کیا عجب کار تحیر ہے سپرد نار عشق
گھر میں جو تھا بچ گیا اور جو نہیں
تھا جل گیا
گرمی دیدار ایسی تھی تماشا گاہ میں
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں تماشا جل
گیا
خود ہی خاکسر کیا اس نے مجھے اور اس
کے بعد
مجھ سے خود ہی پوچھتا ہے بول کیا کیا
جل گیا
صرف یادِ یار باقی رہ گئی دل میں سلیم
ایک اک کرکے سبھی اسبابِ دنیا جل گیا
(سلیم کوثر)
No comments:
Post a Comment