آج مورخہ 10 دسمبر اردو ناول اور ڈرامہ نگار عمیرہ احمد
کا یوم پیدائش ہے۔ عمیرہ احمد کا شمار دور حاضر کے مقبول ترین اردو ناول اور ڈراما
نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ 10 دسمبر 1976 کو صوبہ پنجاب پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں
پیدا ہوئیں اور مرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ وہ آرمی پبلک
کالج سیالکوٹ میں انگریزی زبان کی تدریس کرتی رہیں بعد ازاں تحریری کاموں پر پوری
توجہ دینے کے لئے انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔
عمیرہ احمد نے بطور مصنفہ
اپنے کیریئر کا آغاز 1998 میں کیا۔ ان کی
ابتدائی کہانیاں اردو ڈائجسٹوں کی زینت بنیں اور پھر کتابی صورت میں بھی شائع
ہوئیں۔ عمیرہ احمد تقریباً 16 کتابوں کی مصنفہ ہیں
جن میں بیشتر ناول مقبول عام کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کئی کہانیاں ڈرامے کی
صورت میں مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کی گئ ہیں۔ تاہم ان کے ناول ’’پیر کامل‘‘ کے
حصے میں جو مقبولیت آئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ناول عمیرہ احمد کی پہچان اور
شناخت کی حیثیت رکھتا ہے۔
عمیرہ احمد کے جو ناول
ڈرامے کے صورت میں پیش کئے گئے ان میں من و سلویٰ، لاحاصل، امربیل، حسنہ اور حسن
آرا، میری ذات ذرہ بے نشان، تھوڑا سا آسمان، زندگی گلزار ہے، وجود لاریب، مٹھی
بھر مٹی، دوراہا وغیرہ شامل ہیں جنہیں ناظرین کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔ اپنے
پہلے سیریل ’’وجودِ لاریب‘‘ کے لئے انہوں نے بیسٹ رائٹر کا انڈس ویژن ایوارڈ 2005 میں حاصل کیا۔ ’’وجودِ لاریب‘‘ لکس ایوارڈ
کے لئے بھی نامزد ہوا۔ اس کے علاوہ وہ تین ٹیلی فلمز اور ایف ایم 101 اسلام آباد کے لئے ’’نور کا مسکن‘‘ نامی ایک ڈرامہ
بھی لکھ چکی ہیں۔ ان کے دیگر ناولز میں،
میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے، شہر ذات، اڑان، بے حد، قیدِ تنہائی، کنکر، محبت
صبح کا ستارہ ہے، اب میرا انتظار کر، کوئی بات ہے تیری بات میں، سودا، تیری یاد
خارِ گلاب ہے، سحر ایک استعارہ ہے، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا، کس جہاں کا زر لیا،
عکس، حاصل، لاحاصل، ہم کہاں کے سچے تھے، آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں، ہلالِ جرأت،
بات عمر بھر کی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا، ایمان امید اور محبت وغیرہ شامل یں۔
عمیرہ کی تحاریر اور
کہانیاں عموماً حقیقی سماجی مسائل کے گرد گھومتی ہیں اور موجودہ زمانے کی تہذیب و
ثقافت کی عکاس ہیں۔ مقامی مسائل اور حالات کا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ روحانیت کا
موضوع بھی ان کے ناولوں کا خاص عنصر ہے۔ عمیرہ احمد کو ہر طبقے بشمول بزرگ و
نوجوان مرد و خواتین پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment