ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا، چڑیا لائی
دال کا دانا، چڑا لایا چاول کا دانا، اس سے کھچڑی پکائی، دونوں نے پیٹ بھر کر
کھائی، آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کھچڑی بھی بہت ہوتی ہے۔
چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل
میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے
روز کھچڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چوالیس حصے تو لے، اے
بھاگوان پسند کر یا نا پسند کر۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر، چڑے نے اپنی چونچ میں
سے چند نکات بھی نکالے اور بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حیران ہوئی بلکہ رو رو کر
ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو میرا جنم کا ساتھ تھا لیکن کیا کرسکتی تھی۔
دوسرے دن پھر چڑیا دال کا دانا لائی
اور چڑا چاول کا دانا لایا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈیا چڑھائی۔ کھچڑی پکائی، کیا
دیکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہیں۔ چڑے نے چاول کا دانہ کھایا، چڑیا نے دال کا دانا
اٹھایا۔ چڑے کو خالی چاول سے پیچش ہوگئی، چڑیا کو خالی دال سے قبض ہوگئی۔ دونوں
ایک حکیم کے پاس گئے جو ایک بلا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرا
اور پھیرتا ہی چلا گیا۔
یہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج
کل تو چاول ایکسپورٹ ہوجاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکیاں جو مولوی
اسماعیل میرٹھی کے زمانے میں دال بگھارا کرتی تھیں، آج کل فقط شیخی بگھارتی ہیں۔
(’’اردو کی آخری کتاب‘‘ از ابن انشا
سے انتخاب)
No comments:
Post a Comment