Wednesday, September 30, 2015

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
ہرچند راکھ ہوکے بکھرنا ہے راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تونے کہا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
بچھتی تھی جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
کیا شاخ باثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اٹھا شکیب کبھی سامنے بھی دیکھ

(شکیب جلالی)


No comments:

Post a Comment

Sponsored