کبھی کہا نہ کسی سے
ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر
ہوگئی زمانے کو
دعا بہار کی مانگی
تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی
میرے آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں
کا خون ہوتا ہے
حضور شمع نہ لایا
کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل
میں تم نہ جاؤگے
کہو تو آج سجالوں غریب
خانے کو
دبا کے قبر میں سب
چل دیئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا
ہوگیا زمانے کو
اب آگے اس میں
تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں
چھوڑ دوں فسانے کو
قمر ذرا بھی نہیں تم
کو خوفِ رسوائی
چلے ہو چاندنی شب
میں انہیں منانے کو
(قمر جلالوی)
No comments:
Post a Comment