دھڑکن کو تیری یاد سے تحریک مل رہی ہے
چاہت اگر سزا ہے، ہمیں ٹھیک مل رہی ہے
اس در سے جو بھی لوٹ کے آیا تو رو
پڑا وہ
لگتا ہے آنسوؤں کی وہاں بھیک مل رہی
ہے
ہم نے تو پل صراط کے بارے میں سن رکھا
تھا
ہر راہ بال سے ہمیں باریک مل رہی ہے
شاید کسی بھی لمحے مقابل ہوں اس کی
گلیاں
جو دور کی صدا تھی وہ نزدیک مل رہی ہے
جو جگمگا اٹھی تھی تجھے دیکھ کر خوشی
سے
مدت سے راہ وہ ہمیں تاریک مل رہی ہے
(فاخرہ بتول)
No comments:
Post a Comment