صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤ گے لوگو
وہ عالم وحشت ہے کہ مرجاؤ گے لوگو
یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤگے لوگو
میری ہی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے لوگو
وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہشیار ہی رہنا
سوکھے ہوئے پتے ہو بکھر جاؤگے لوگو
اس خاک پہ موسم تو گزرتے ہی رہے ہیں
موسم ہی تو ہو تم بھی گزر جاؤ گے لوگو
اجڑے ہیں کئی شہر، تو یہ شہر بسا ہے
یہ شہر بھی چھوڑا تو کدھر جاؤگے لوگو
حالات نے چہروں پہ بہت ظلم کئے ہیں
آئینہ اگر دیکھا تو ڈر جاؤ گے لوگو
اس پر نہ قدم رکھنا کہ یہ راہِ وفا ہے
سرشار نہیں ہو، کہ گزر جاؤگے لوگو
(سرشار صدیقی)
No comments:
Post a Comment