اب کے سال پونم میں جب تو
آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گے شوخ
تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے
تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی
راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ
کیا دیں گے، زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے
آہنی کلیجے کو زخم کی
ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خم
سنواریئے صاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں،
تیزگام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا
نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے
(ناصر کاظمی)
No comments:
Post a Comment