Tuesday, March 17, 2015

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آکر
اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گلا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے؟
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موج ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں ہے اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

(محسن نقوی)


No comments:

Post a Comment

Sponsored