ajnabi shahar kay ajnabi rastay meri tanhai per muskuratay rahay
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر
مسکراتے رہےمیں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک
یاد آتے رہےزخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف
ایک دریچہ کھلاہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں، چوٹ کھاتے رہے،
گنگناتے رہےزہر ملتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز
جیتے رہےزندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے
آزماتے رہےسخت حالات کے تیز طوفان میں گھر گیا تھا ہمارا
جنوں وفاہم چراغ تمنا جلاتے رہے، وہ چراغ تمنا بجھاتے
رہےکل کچھ ایسا ہوا، میں بہت تھک گیا، اس لئے سن کے
بھی ان سنی کرگیاکتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں
کے در کھٹکھٹاتے رہے(راہی معصوم رضا)
No comments:
Post a Comment