یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ
نگاہیں
آخر تم ہی بتاؤ کیونکر نہ
تم کو چاہیں
اب سر اٹھا کے میں نے شکوؤں
سے ہاتھ اٹھایا
مرجاؤں گا ستم گر نیچی نہ
کر نگاہیں
کچھ گل ہی سے نہیں ہے روح
نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے
ہوئے ہے بانہیں
اللہ ری دل فریبی جلووں کے
بانکپن کی
محفل میں وہ جو آئے کج
ہوگئیں کلاہیں
یہ بزم جوش کس کے جلووں کی
رہ گزر ہے
ہر ذرے میں ہیں غلطاں اٹھتی
ہوئی نگاہیں
(جوش ملیح آبادی)
No comments:
Post a Comment