Sunday, November 15, 2015

ٹوبہ ٹیک سنگھ ............ )تحریر:سعادت حسن منٹو(



بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہرحال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق اِدھر اُدھر اُونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیئے گئے تھے۔ جو باقی تھے اُن کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چُونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے۔ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ جتنے ہندو سِکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بورڈ پہنچا دیئے گئے۔
اُدھر کا معلوم نہیں۔ لیکن اِدھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے
ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ’’مولبی ساب، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے‘‘۔ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔ ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں‘‘۔ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔
اسی طرح ایک سِکھ پاگل نے ایک دوسرے سِکھ پاگل سے پُوچھا۔ ’’سردار جی! ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جارہا ہے، ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی‘‘۔
دوسرا مسکرایا۔ ’’مجھے تو ہندو ستوڑوں کی بولی آتی ہے، ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں‘‘۔
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گِرا اور بے ہوش ہوگیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ
پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی اَن پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قاعدِ اعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے؟ اس کا محل وقوع کیا ہے۔ اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہوگیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اُترنے کو کہا تو وہ اور اُوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا : ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت پر ہی رہوں گا‘‘۔
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اُترا اور اپنے ہندو سِکھ دوستوں سے گلے مِل مِل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔ایک ایم۔ ایس۔سی پاس ریڈیو انجینئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اُتار کر وفعدار کے حوالے کردیئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکُن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چُنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سِکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہوجائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیٰحدہ علیٰحدہ بند کردیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہوکر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سُنا کہ امرت سر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دُکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرادیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بُھولا تھا۔ چُنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل بُرا نہ کرے۔ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔اُس ہندوستان میں جہاں اُس کی محبوبہ رہتی تھی۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرت سر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اُڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔
ایک سِکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہوچکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے: ’’اوپڑ دی
گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘۔ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سُوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پُھول گئی تھیں مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ’’اوپڑ دی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘۔
لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ کی‘‘ جگہ ’’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس اُلجھاؤ میں گرفتار ہوجاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سُنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہوجائیں۔
اِس سِکھ پاگل کے کیس چھدرے ہوکر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سَر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بیضررتھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ اُلٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کراگئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے، اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ وفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی اِستعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کر پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہوگئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں، پَر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہوگئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناًاسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا : ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا‘‘۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو، مگر وہ بہت مصروف تھا اس لئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف واہے گوروجی دا خالصہ اینڈ واہے گوروجی کی فتح۔ جو بولے سونہال، ست سری اکال‘‘۔
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو، سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سُنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آتا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ’’یہ تم سے ملنے آیا ہے، تمہارا دوست فضل دین ہے‘‘۔ 
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا : ’’میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے، مجھ سے جتنی مدد ہوسکی، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور....‘‘ 
وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا : ’’بیٹی روپ کور‘‘۔ فضل دین نے رُک رُک کر کہا: ’’ہاں.....وہ.....وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی‘‘۔
بشن سنگھ خاموش رہا۔فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ’’ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سُنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔ اور بہن امرت کور سے بھی.....بھائی بلبیر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی.....اور ......میرے لائق جو خدمت ہو، کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں.....اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں‘‘۔
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟‘‘
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’کہاں ہے، وہیں ہے جہاں تھا‘‘۔
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘
’’ہندوستان میں۔ نہیں نہیں پاکستان میں‘‘۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑابڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مُنگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُرفِٹے مُنہ!‘‘
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہوچکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سِکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہوگیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضامند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اِدھر اُدھر بھاگ اُٹھتے تھے، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کردیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے، کوئی گا رہا ہے، آپس میں لڑجھگڑ رہے ہیں، رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اُکھاڑ کر کہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سِکھوں کو یہ نعرے سُن کر طیش آگیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اِس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘
متعلقہ افسر ہنسا۔ ’’پاکستان میں‘‘۔
یہ سُن کر بشن سنگھ اُچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے‘‘۔ اور زور زور سے چلّانے لگا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانہ دی مُنگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان‘‘۔
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی،اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سُورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے مُنہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تا
روں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔

No comments:

Post a Comment

Sponsored