امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے
تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے
پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہوگئی تھیں۔ اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی
تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہوگی۔ میں یہی سوچتی
ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی
جی رورہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی۔ وہ
پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آسکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے
سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے۔ جانے کب میرا بیٹا گھر آجائے۔ اسے کریلے بہت پسند
ہے نا جی، اسی لئے روز پکا لیتی ہوں۔ سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے
اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے
ہیں نا میری بات۔‘‘ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ
ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنے نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی
آنکھیں بھی بے دردی سے صاف کرتی جارہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے
آنسو میری آنکھوں میں رہنے آگئے تھے۔
(ڈاکٹر نگہت نسیم کے مضمون ’’کریلے‘‘
سے اقتباس)
No comments:
Post a Comment