Friday, June 19, 2015

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے خفا، یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

(ساغر صدیقی)


No comments:

Post a Comment

Sponsored