کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں
کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں
وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا
کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں
مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں
ملی تو ہے مری تنہائیوں کو آزادی
جڑی ہوئی ہیں کچھ آنکھیں مگر دریچے میں
غنیم بھی کوئی مجھ کو نظر نہیں آتا
گھرا ہوا بھی ہوں چاروں طرف سے خطرے میں
مرا شعور بھی شاید وہ طفل کمسن ہے
بچھڑ گیا ہے جو گمراہیوں کے میلے میں
ہنر ہے شاعری شطرنج شوق ہے میرا
یہ جائیداد مظفر ملی ہے ورثے میں
No comments:
Post a Comment