Sunday, February 1, 2015

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں

جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے دل سے بھلادیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں

جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو

اسے اتنی گرمیٔ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے

یہ تمہارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو



(بشیر بدر)



No comments:

Post a Comment

Sponsored