Thursday, February 26, 2015

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جئے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخیٔ حالات پہ رونا آیا
حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مرمر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہئے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا

(سیف الدین سیف)


No comments:

Post a Comment

Sponsored