اردو غزل کو نیا پیرہن عطا کرنے والے مشہور شاعر ناصر کاظمی کا شمار اردو کے چند مشہور اور بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کا پورا نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کو استعارے اور چھوٹی بحر کو استعمال کرنے میں کمال حاصل تھا۔ ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925 کو بھارت کے شہر انبالہ (ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور بعد ازاں اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ وہ اوراق نو، ہمایوں اور خیال کی مجلس ادارت میں شامل رہے اور پھر اپنی وفات تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں سے ہیں۔ انہوں نے مضامین اور نظمیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے۔ ان کی شاعری میں شدت اور کرختگی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک ہے جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ پہلا مجموعہ ’’برگ نے‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوا جبکہ دوسرے دو مجموعے ’’دیوان‘‘ اور ’’پہلی بارش‘‘ ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ اس کے علاوہ ’’سُر کی چھایا‘‘ ، ’’نشاط خواب‘‘ اور ’’خشک چشمے کے کنارے‘‘ بھی ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو کے چند بڑے شاعروں کے الگ الگ منتخبات بھی مرتب کئے جن میں میر نظیر ولی اور انشا سرفہرست ہیں۔ ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحب اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے میر تقی میر کے دبستان شاعری کو انتہائے کمال تک پہنچادیا۔
2 مارچ 1972 کو ناصر کاظمی لاہور میں وفات پاگئے۔ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں اور ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
مشہور غزلیں :
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
۔۔۔۔۔
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
۔۔۔۔۔۔
اے دوست ہم نے ترکِ تعلق کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
No comments:
Post a Comment