شان الحق حقی
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
اردو زبان کے ممتاز شاعر، ماہر لسانیات، محقق، نقاد، مترجم اور مدیر شان الحق حقی 15 دسمبر 1917ء کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور سینٹ اسٹیفنز کالج سے ایم اے (انگریزی ادب) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کے والد گرامی احتشام الحق حقی بھی لغت نویس تھے اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی نگرانی میں لغت کبیر پر انہوں نے کام کیا تھا۔ شان الحق حقی تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ آپ کثیر للشان محقق تھے اور اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ مختلف علمی رسائل و جرائد کے مدیر رہے اور قومی محکمۂ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی سے منسلک رہے۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لئے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری آپ ہی کی مرتب کردہ ہے۔ شان الحق حقی ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے لیکن اردو سے محبت سب پر حاوی تھی۔ زبان پر جو دسترس شان الحق حقی کو حاصل تھی وہ ملکہ کسی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔ شان الحق حقی شاعر، افسانہ نگار، مترجم، لغت نگار، ماہر اشتہارات، کاپی رائٹر، مصور اور نہ جانے کیا کچھ نہ تھے۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود ہر سانس اردو کی خدمت کرتے رہے۔ آخری دنوں میں وہ آکسفورڈ پریس کے لئے اردو لغت پر کام کرتے رہے۔
تار پیراہن (منظومات)، نکتۂ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، ارتھ شاستر (ترجمہ) اور انجان راہی آپ کی اہم کاوش ہیں۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ’’میری تحریک‘‘ پر شان الحق حقی کو ان کی ادبی خدمات پر ’’نشان سپاس‘‘ 23 فروری 91ء کو پیش کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے حقی کو تمغہ قائد اعظم 68ء اور ستارۂ امتیاز 85ء میں عطا کئے۔11 اکتوبر 2005ء کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔
تار پیراہن (منظومات)، نکتۂ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، ارتھ شاستر (ترجمہ) اور انجان راہی آپ کی اہم کاوش ہیں۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ’’میری تحریک‘‘ پر شان الحق حقی کو ان کی ادبی خدمات پر ’’نشان سپاس‘‘ 23 فروری 91ء کو پیش کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے حقی کو تمغہ قائد اعظم 68ء اور ستارۂ امتیاز 85ء میں عطا کئے۔11 اکتوبر 2005ء کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔
No comments:
Post a Comment