یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر
یہی تو سوچ کر اب
خوف آتا ہے مجھے اکثر
ابھی تو ٹھیک ہے
لیکن تمہارے بعد کیا ہوگا
ہوائیں ہیں حوادث کی
اڑا لے جائیں گی سب کچھ
اگر میں رہ گئی تنہا
تو گھر آباد کیا ہوگا
نہ خوشبو ہے نہ سایا
ہے نہ اُس کی کوئی آہٹ ہے
اب اس سے بڑھ کے
میرا گھر بھلا برباد کیا ہوگا
جہاں اس زندگانی کا
آخری اک موڑ آتا ہے
وہاں بھی ہوسکی مجھ
سے نہ کچھ فریاد کیا ہوگا
مجھی میں رہ گیا
گھُٹ گھُٹ کے میری ذات کا پنچھی
اگر آزاد اب ہوگا
تو یہ آزاد کیا ہوگا
No comments:
Post a Comment