Friday, January 30, 2015

یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر

یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر

ابھی تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بعد کیا ہوگا

ہوائیں ہیں حوادث کی اڑا لے جائیں گی سب کچھ

اگر میں رہ گئی تنہا تو گھر آباد کیا ہوگا

نہ خوشبو ہے نہ سایا ہے نہ اُس کی کوئی آہٹ ہے

اب اس سے بڑھ کے میرا گھر بھلا برباد کیا ہوگا

جہاں اس زندگانی کا آخری اک موڑ آتا ہے

وہاں بھی ہوسکی مجھ سے نہ کچھ فریاد کیا ہوگا

مجھی میں رہ گیا گھُٹ گھُٹ کے میری ذات کا پنچھی

اگر آزاد اب ہوگا تو یہ آزاد کیا ہوگا

(سیما غزل)



No comments:

Post a Comment

Sponsored