وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے
کوئی نسیم ا نغمہ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے
خدا نکردہ زمین پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے
تری سلیقہ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے
کبھی ہماری ضرورت پڑے دی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے
کنویں میں پھینک کے پچھتارہا ہوں دانش
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لئے
(احسان دانش)
No comments:
Post a Comment