Monday, March 23, 2015

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے
کوئی نسیم ا نغمہ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے
خدا نکردہ زمین پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے
تری سلیقہ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے
کبھی ہماری ضرورت پڑے دی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے
کنویں میں پھینک کے پچھتارہا ہوں دانش
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لئے

(احسان دانش)


No comments:

Post a Comment

Sponsored