Thursday, February 5, 2015

روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کرگیا

روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کرگیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کرگیا
شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کرگیا
منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کرگیا
بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کرگیا
دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کرگیا
سب اہلِ شہر جس پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کرگیا
محسن یہ دل کہ اس سے بچھڑتا نہ تھا کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کرگیا

(محسن نقوی)




No comments:

Post a Comment

Sponsored