Tuesday, September 8, 2015

اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں

اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
درپیش صبح و شام یہی کشمکش ہے اب
اُس کا بنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جتنا برا سمجھتے ہو اتنا نہیں ہوں میں
اس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجئے
لہجے کا رخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
امجد تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گرنے کا ایسا خوف تھا ٹھہرا نہیں ہوں میں

(امجد اسلام امجد)


No comments:

Post a Comment

Sponsored