روٹھا تو شہرِ خواب کو غارت بھی کرگیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کرگیا
شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کرگیا
منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک
چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کرگیا
بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کرگیا
دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کرگیا
سب اہلِ شہر جس پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کرگیا
محسن یہ دل کہ اس سے بچھڑتا نہ تھا
کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کرگیا
(محسن نقوی)
No comments:
Post a Comment