تعلق تو چھتری ہے۔ ہر
جسمانی، ذہنی، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔ بے
روزگاری، بیماری، غریبی، تنہائی سارے غموں پر تعلق کا ہی پھاہا رکھا جاتا ہے۔
دوستی، رشتہ داری، بہن بھائی، نانا دادا ۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ ہر دکھ کی گھڑی میں کندھے
پر رکھا ہوا ہمدرد ہاتھ، آنکھ میں جھلملاتی شفقت، ایک میٹھا بول، مسکراتا چہرہ
بلڈ ٹرانسفیوشن، اسپرو کی گولی بن سکتے ہیں۔ اسی لئے محبت اندوہ رہا کہلاتی ہے۔
انسان اسی لئے کبھی خدا نہیں بن سکتا کہ اس کی ضرورت دوئی ہے حتی کہ اگر اسے دوسرا
نہ ملے تو وہ خدا کو اپنی دوئی کا حصہ بنالیتا ہے۔ انسان کی تنہائی قیامت خیز ہے۔
جونہی اس خلا کو بھرنے والا کوئی آجاتا ہے، انسان اپنی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور
اپنے آپ کو مکمل سمجھنے لگتا ہے۔ ساتھ نہ ہو تو زندگی آزاد دوزخ ہے۔
(بانو قدسیہ کے ناول ’’حاصل
گھاٹ‘‘ سے اقتباس)
No comments:
Post a Comment