Wednesday, July 15, 2015

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لئے عذر نا چاہے جاتے
کاش اے ابر بہاری! تیرے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا بھی گاہے جاتے
ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزش مستی کو سراہے جاتے
لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہے فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غم ہستی سے نبھائے جاتے

(شان الحق حقی)


No comments:

Post a Comment

Sponsored