ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے
کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم
نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تو ہی بتاً اب تک
یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں یا آپ
دلِ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش
کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی
نہیں پایاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ
پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ
ہوں، کم یاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھولوں نے، اے شاد!
یہ کہلا بھیجا ہے
آجاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں،
ابھی شاداب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
No comments:
Post a Comment