Wednesday, June 17, 2015

دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو

دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو
شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی، پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم نے بیچ دی اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک، کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہر انگیز تبسم، مدِنظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آجائے تو
سنی سنائی بات نہیں  یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب، تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں کچھ تو یاروں فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو

(عندلیب شادانی)


No comments:

Post a Comment

Sponsored