Monday, June 1, 2015

اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھوجاتی ہے

اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھوجاتی ہے
شب کو آکر مری آغوش میں سوجاتی ہے
یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے
صبح کا ذکر نہیں صبح تو ہوجاتی ہے
رشتۂ جاں کو سنبھالے ہوں کہ اکثر تری یاد
اس میں دوچار گہر آکے پروجاتی ہے
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغ منزل
آنکھ تو صرف تماشوں ہی میں کھوجاتی ہے
کب مجھے دعویٰ عصمت ہے مگر یاد اس کی
جب بھی آجاتی ہے دامن مرا دھو جاتی ہے
ناخدا چارۂ طوفاں کرے کوئی ورنہ
اب کوئی موج سفینے کو ڈبو جاتی ہے
کرچکا جشن بہاراں سے میں توبہ حقی
فصل گل آکے مری جان کو رو جاتی ہے

(شان الحق حقی)

No comments:

Post a Comment

Sponsored