Monday, June 1, 2015

بنیاد ہل گئی تو مکاں بن کے مٹ گیا

بنیاد ہل گئی تو مکاں بن کے مٹ گیا
اس بار بھی یقین گمان بن کے مٹ گیا
تعبیر راکھ بن کے اڑی آنکھ میں سدا
جو خواب تھا وہ پل میں دھواں بن کے مٹ گیا
بازی پھر اب کی بار مقدر نے جیت لی
پھر چاہتوں کا ایک جہاں بن کے مٹ گیا
اک دائمی کسک سی جگر میں اتر گئی
اور زخم سرمئی سا نشاں بن کے مٹ گیا
ہے لازوال کربِ مسلسل کا نام ہجر
اور یہ وصال آہ و فغاں بن کے مٹ گیا
بکھری ہوئی ہیں چاروں طرف دل کی کرچیاں
لگتا ہے ایک گھر سا یہاں بن کے مٹ گیا
جذبہ بنا گلاب تو قائم رہا بتول
جوں ہی بنا یہ تیرِ کماں، بن کے مٹ گیا

(فاخرہ بتول)


No comments:

Post a Comment

Sponsored