بنیاد ہل گئی تو مکاں بن کے مٹ گیا
اس بار بھی یقین گمان بن کے مٹ گیا
تعبیر راکھ بن کے اڑی آنکھ میں سدا
جو خواب تھا وہ پل میں دھواں بن کے مٹ گیا
بازی پھر اب کی بار مقدر نے جیت لی
پھر چاہتوں کا ایک جہاں بن کے مٹ گیا
اک دائمی کسک سی جگر میں اتر گئی
اور زخم سرمئی سا نشاں بن کے مٹ گیا
ہے لازوال کربِ مسلسل کا نام ہجر
اور یہ وصال آہ و فغاں بن کے مٹ گیا
بکھری ہوئی ہیں چاروں طرف دل کی کرچیاں
لگتا ہے ایک گھر سا یہاں بن کے مٹ گیا
جذبہ بنا گلاب تو قائم رہا بتول
جوں ہی بنا یہ تیرِ کماں، بن کے مٹ گیا
(فاخرہ بتول)
No comments:
Post a Comment