صرف عبادت گزار اور چور ہی رات کے بدن میں دھڑک رہے
ہوتے ہیں -
عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلیٰ ہوتا ہے اور چور کے
سامنے اس کا مسئلہ -
عبادت گزار اندر کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور چور باہر
کے سفر پر نکل پڑتا ہے -
وہ اپنے جوتے اتار کر بڑا با ادب ہو کر مختلف گھروں میں
یوں داخل ہوتا ہے جیسے کسی مقدس مقام کی زیارت کو آیا ہو -
اگر اس کی آہٹ سے خلق خدا کی نیند میں خلل پڑتا تو وہ
شرم کے مارے منہ چھپا کر بھاگ اٹھتا ہے -
کیونکہ ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آگیا تو چور کے
رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائیگا -
اسی لیے تو جس گاؤں میں چور کا چکر لگ جائے وہاں کے
سیانے اس کے پاؤں کے نشان سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں -
چور اتنا وضعدار اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے کہ کچھ مل
جائے تو ٹھیک ورنہ چپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ جائے گا -
ظاہر ہے وہ رشتےدار تو ہے نہیں کہ کہے اگر تمہارے پاس
کچھ دینے کو نہیں تو کسی سے قرض لے دو
-
(از ڈاکٹر
یونس بٹ " شیطانیاں " )
No comments:
Post a Comment