Wednesday, April 1, 2015

بجھتی ہوئی مسکراہٹ

کسی من چاہے کا پرتو کب تک یوں سامنے آتا رہتا ہے کہ جیسے وہ سامنے ہو؟ ۔۔۔۔ صرف چند برسوں کے لئے۔ پہلے بدن کا لمس ساتھ چھوڑتا ہے، پھر آواز معدوم ہوتی چلی جاتی لے اور کچھ عرصے بعد آنکھیں بھولتی ہیں، مگر مسکراہٹ بہت دیر تک ساتھ دیتی ہے لیکن ایک روز وہ بھی بجھتی ہوئی لو کی طرح تھرتھراتی ہوئی تاریک ہوجاتی ہے

(مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ’’خانہ بدوش‘‘ سے اقتباس)


No comments:

Post a Comment

Sponsored