Tuesday, March 24, 2015

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہے تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شاید ہمیں زمانہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے
اسی لئے تو کھلائے ہیں پھول صفحوں پر
ہمیں جو زخم لگے ہیں وہ دوستانہ لگے
وہ اک ستارہ کہ جو راستہ دکھائے ہمیں
وہ اک اشارہ کہ جو حرف محرمانہ لگے
نہ جانے کب سے کوئی میرے ساتھ ہے قیصر
جو اجنبی نہ لگے اور آشنا نہ لگے



No comments:

Post a Comment

Sponsored